صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃاللہ علیہ

  • Admin
  • Sep 21, 2021

ولادت:

صَدْرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللّٰہ الہادی کی وِلادت مُبارک 21 صَفَرُ المُظَفَّر1300ھ بمطابق یکم جنوری 1883ء بروز پیر شریف’’ہند‘‘ کے شہر’’ مُراد آباد ‘‘ہوئی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا نام ’’محمد نعیم الدین ‘‘  رکھا گیا جبکہ علمِ اَبْجَد کے اِعتبار سے تاریخِی نام ’’غلام مُصْطَفیٰ ‘‘(1300 ھ) تجویز ہوا۔ آپ کے والدِ ماجِد حضرت مولیٰنا سیّد محمد معین الدین نُزْہَتؔ  اور جَدِّ امجد(یعنی دادا جان) حضرت مولیٰنا سید امین الدّین راسخؔ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما  اپنے اپنے دور میں اُردو اور فارسی کے استاذ مانے گئے ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والد حضرت مولانا سیِّد محمد معینُ الدّین علیہ رحمۃ اللّٰہ المُبین کے کئی فرزند قراٰن کے حافظ ہو نے کے بعد وفات پاچکے تھے ۔ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کی پیدائش پر آپ کے والدِ محترم علیہ رحمۃ اللّٰہ الاکرم نے نَذْر مانی کہ مولیٰ  تَعَالٰی نے اسے زندگی بخشی تو خدمتِ دین کے لئے اس فرزند کو وَقْف کردوں گا ۔

تعلیم وتربیت:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے اُردُو اور فارسی کی تعلیم والدِ گرامی حضرت مولانا سیّد محمد معین الدین نُزْہَتؔ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے حاصل کی پھر حضرت مولانا ابوالفضل فضل احمد علیہ رحمۃ اللّٰہ الاحد  سے عربی کی چند کتب پڑھیں ۔ حضرت مولانا ابوالفَضْل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو نعتِ سرکار صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم سے عشق تھا۔ چنانچِہ ہر جمعہ کو بعد نمازِ جمعہ مسجد چوکی حَسَن خان مُراد آباد میں نعت شریف کی محفل کرواتے جس میں شہر بھر سے کثیر لوگ شریک ہوا کرتے ۔

دَرْسِ نِظَامِی کی تَکْمِیل:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے اُستاذِ محترم حضرت مولانا ابوالفضل علیہ رحمۃ اللّٰہ العدل آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کوساتھ لے کرشیخ الحدیث ، امامُ العلماء جامِعُ المَعقولِ وَالْمَنْقول حضرتِ علّامہ مولاناسیّد محمد گُل قادِرِی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی کی خدمت میں لے کر حاضِر ہوئے اور عرض کی :   ’’یہ صاحبزادے نہایت ذکی و فہیم(یعنی نہایت ذِہین و سمجھدار) ہیں ، میری خواہش ہے کہ بقیہ درسِ نظامی کی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے تکمیل کریں ۔‘‘ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قبول فرمایا۔ چنانچِہ صَدرُ الافاضِلعلیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے اُستاذُ الاساتِذہ حضرت علّامہ مولاناسیّد محمد گل قادِرِی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی سے مَنْطِق، فَلْسَفَہ، ریاضی، اُقْلِیْدَس، تَوْقِیْت وہَیْئَت، عَرَبی بَحروفِ غیرمَنْقُوْطَہ( بغیر نقطوں کے حرفوں والی عربی)، تفسیر، حدیثاور فِقْہوغیرہ بہت سے مُروَّجہ دَرْسِ نظامی اور غیردَرْسِ نظامی عُلُوم وفُنُون کی اَسناد حاصل فرمائیں اور بَہُت سے سَلاسِلِ احادیث وعُلومِ اسلامیہ کی سَنَدیں بھی تَفویض ہوئیں (یعنی دی گئیں )۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا سلسلۂ سندِحدیث قُدْوَۃُ الْفُضَلَاء، عُمْدَۃُ المُحَقِّقِین حضرتِ مولانا سیدمحمدمکّی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی  خطیب و مدرِّسِ مسجدُالحرام کے ذریعے مُحَشِّیٔ دُرِّمختار خاتَمُ المُحَقِّقِیْن سیداحمدطَحْطَاوِی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی سے ملتاہے جن کی سندعرب وعجم میں مشہورہے۔پھر ایک سال تک فتویٰ نَویسی کی مَشْق فرمائی ۔ 1320 ھ بمطابق 1902ء میں 20 سال کی عمرمیں عظیم الشّان جلسے میں عُلَمائے کرام رَحِمَھُمُ اللّٰہ السّلام نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی دستار بندی فرمائی، اِس موقع پر آپ کے والدِ گرامی قُدِّس سِرّہٗ السّامی  نے تاریخ کہی:

ہے میرے پِسَر کو طَلَبَہ پر وہ تَفَضُّل          سیّاروں میں رکھتا ہے جو مِرِّیخ فضیلت

نُزْہَت ؔ! نعیم الدین کو یہ کہہ کے سنادے       دستارِ فضیلت کی ہے تاریخ ’’فضیلت‘

علمِ طِبّ کی تَحصیل:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے علمِ طِبّ حکیمِ حاذِق حضرت مولانا حکیم فیض احمد صاحِب امروہوی سے حاصل کیا ۔جس طرح سے آپ کو عُلُوم مَنْقُولیہ وعُلُوم مَعَقُولیہ میں ہم عَصرعُلَماء میں نُمایاں حیثیت حاصل تھی اسی طرح میدانِ طِبّ میں بھی آپ کمال مَہارت رکھتے تھے کہ عُموماً مریض کا چہرہ دیکھ کر ہی مرض پکڑ لیا کرتے تھے، نَبَّاضی(یعنی نبض دیکھ کر مرض شَناخْتْ کرنے ) میں بھی یکتائے زمانہ تھے۔مُفَرّداتِ اَدوِیہ کے خواص اَزْبَر(یعنی زبانی) تھے، مُرَکَّبات میں بھی خاصی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔جامِعہ نعیمیہ سے فارِغ ہونے والے بَہُت سے عُلَماء نے آپ سے علمِ طِبّ بھی حاصل کیا۔ آپ کا جووقت تبلیغ و تدریس سے بچتا تھا اُس میں طبّ و حکمت کے ذریعے خدمتِ خَلْق فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ فرمایا کرتے تھے۔ اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

مُرشِد کی تلا ش:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل پیر کی جُستُجو میں ’’ پیلی بھیت ‘‘حضرت شاہ جی محمد شیر میاں صاحب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب کی خدمت میں حاضِر ہوئے۔حضرت شاہ صاحِب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب بڑی مَحبَّت و کرم سے پیش آئے اور اس سے پہلے کہ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کچھ کہیں ، فرمایا :  ’’ میاں ! مُراد آباد میں مولانا سیّدمحمد گل قادِرِی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی  بڑی اچّھی صورت ہیں ، میں مُراد آباد جاتا ہوں تو اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں ، آپ جس اِرادے سے آئے ہیں آپ کا حصہ وہیں ہے۔ ‘‘ چنانچِہ صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل مُراد آباد واپس آئے تو حضرتِ مولاناسیّد محمد گل قادری علیہ رحمۃ اللّٰہ الھادی نے دیکھتے ہی ارشادفرمایا :  ’’شاہ جی !میاں صاحب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب کے ہاں ہو آئے، اچھا !پرسوں جمعہ ہے، نمازِ فجر کے بعد آئیے تو آپ کا جو حصّہ ہے، عطا کیا جائے گا۔ ‘‘ تیسرے روز جمعہ کو بعد نمازِ فجر حصرت مولانا شاہ محمد گل علیہ رحمۃ اللّٰہ العدل نے قادِری سلسلے میں بیعت فرمایااور جو حصّہ تھا عطا کیا۔

دو شہزادوں کی ولادت:

حضرت شاہ جی محمد شیر میاں صاحب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب نے چلتے وقت دعا دی تھی کہ اللّٰہ  تَعَالٰی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو دشمنانِ دین پر فتح مند رکھے اور بچے عطا فرمائے، مُراد آباد آنے کے بعد ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک ساتھ دو فرزندپیدا ہوئے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ علیہ سے پہلی ملاقات:

میرے آقا اعلٰیحضرت، اِمامِ اَہلسنّت، ولیٔ نِعمت، عَظِیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِٔ سُنّت، ماحِیٔ  بِدْعَت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت، اِمامِ عشق ومحبَّت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علَّامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی مُحَقِّقانہ تصانیف کے مُطالَعے سے حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے دل میں غائبانہ طور پر آپ علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کی گہری محبت و عقیدت پیدا ہوگئی تھی۔ ایک دفعہ کسی بدمذہب نے ایک اخبار میں اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کے خلاف مضمون لکھا جس میں دل کھول کر دُشْنام طَرازِی کا مظاہرہ کیا۔ حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے جب اُس مضمون کو دیکھا تو سخت صدمہ پہنچا ، ہاتھوں ہاتھ اُس کے جواب میں ایک وضاحتی مضمون تحریرفرمایا اورکسی ترکیب سے اُسی اخبار میں شائع کروادیا ۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کو پتا چلا تومُراد آباد میں اپنے ایک عقیدت مند حاجی محمد اشرف شاذلی علیہ رحمۃ اللّٰہ الولی کو تحریر فرمایا کہ مولانا سید محمد نعیم الدینعلیہ رحمۃ اللّٰہ المبین کو ساتھ لے کر بریلی آئیں ۔ پہلی ہی ملاقات میں حضرتِ صَدْرُ الافاضِلعلیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل، اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کی شفقت و محبت سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ پھر کوئی مہینہ بریلی شریف کی حاضِری سے خالی نہ جاتا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خود فرماتے ہیں :   ’’اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کے آستانہ کے سفر کے لئے کبھی میرا بستر کھلا ہی نہیں ، میں لازمی ہر پیر اور جمعرات کو اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کی خدمت میں جاتا تھا ۔‘‘مشہور ہے کہ’’ صَدْرُ الافاضِل ‘‘کا لقب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ ہی نے دیا ۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ نے بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو خلافت عطا فرمائی۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

بیس سال کی عمر میں پہلی تصنیف:

دورانِ طالب علمی صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے صَحافتی طریقے سے تبلیغِ دین کے لیے مختَلِف رسائل و جَرائد میں مَضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مضامین کلکتہ(الھند) کے ’’اَلْہِلال‘‘ اور’’ اَلْبَلاغ‘‘میں شائع ہوتے رہے۔ اِسی دوران آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ خیال فرمایا کہ مَدَنی آقا صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم کے ’’علمِ غیب‘‘ پر ایک ایسی جامِع کتاب ہونی چاہیے، جس سے مُعْتَرِضِین کے تمام اَوہام وشُکوک اور باطل نظریات کا شافی و وافی مُہَذَّب پیرائے میں جواب ہو ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک مستقِل کتاب لکھنی شروع کی ۔ اُس وقت چُونکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس ایسا جامِع کُتُب خانہ نہ تھا کہ جس میں ہر قسم کی کتابیں موجود ہوتیں ، لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مصطَفٰے آباد (رامپور ، ہند) کے کُتُب خانے کی طرف رُجوع کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سفر کر کے ’’ مصطَفٰے آباد‘‘ جاتے، وہاں کے کُتُب خانے سے حوالہ جات دیکھ کر آتے اور مُراد آباد میں کتاب لکھتے۔جب بیس سال کی عمر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی دستار بندی ہوئی تو وہ کتاب بھی مکمَّل ہوگئی جس کانام ’’ اَلْکَلِمَۃُ الْعُلْیَا لِاِعْلَائِ عِلْمِ الْمُصْطَفٰی‘‘ ہے۔

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا خِراجِ تحسین:

جب یہ کتاب شائع ہوئی توحاجی محمد اشرف شاذلیعلیہ رحمۃ اللّٰہ الولی اس کتاب کو  لے کر اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کی خدمت میں حاضِر ہوئے۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ نے اس کومُلاحَظہ کرکے فرمایا :  ’’ مَا شَآءَ  اللّٰہ بڑی عمدہ نفیس کتاب ہے، یہ نو عمری اور اتنے اَحسن دلائل کے ساتھ اتنی بلند کتاب مُصَنِّف کے ہونہار ہونے پر دال(یعنی دلالت کرتی) ہے۔‘‘

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خاص عنایت:

خلیفہ مفتی ٔ اعظم ہندحضرتِ مولانا مفتی محمد اعجازولی رضوی قادِری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی لکھتے ہیں :   فِرَق باطِلہ (یعنی باطِل فِرقوں ) اور مُعانِدین (یعنی مخالفین) سے گفتگو ومُناظِرات میں اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ نے بارہا حضرت صَدْرُ الا فا ضِل  علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِلکو اپنا وکیلِ خاص بنایا ، چنانچِہ اسی خُصوصیَّت کی بنا پر اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ نے ’’ذکرِ اَحباب‘‘ میں ارشاد فرمایا :  

میرے نعیمُ  الدّیں کو نعمت دے

اس سے بَلا میں سماتے یہ ہیں

مشوروں کی قدر فرماتے:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل  اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ علیہ کے اُن ممتاز خلفا میں سے ہیں جنہیں امام اہلسنّت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کے مزاجِ عالی میں بڑا دخل تھا۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے مشوروں کو قبول بھی فرماتے اور اِظہارِ مُسرَّت وشادمانی فرماتے ۔’’اَلطّارِیُّ الدَّاری‘‘ کی تصنیف پر مُسَوَّدہ (مُ۔سَوْ۔وَدہ)  حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کو دکھایا گیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس میں سے کثیر مضمون کے بارے میں اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ سے درخواست کی کہ یہ نکال دیا جائے۔ اعلیٰ حضرتعلیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ نے بِلاتَأ مُّل اسے کاٹ دیا اور صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل سے یہ بھی نہ فرمایاکہ کیوں یہ ترمیم پیش کی ! صَدْرُ الافاضِل  علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ سے محبت وعقیدت کا یہ عالَم تھا کہ اُن کی اِجازت کے بِغیر کوئی سفر نہ فرماتے ۔اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

صَدْرُالافاضِل رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تدریسی مَہارت:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے 1328 ھ میں مُراد آباد(ہند) میں مدرسہ انجمن اہلِ سنّت و جماعت کی بنیاد رکھی جس میں معقولات و منقولات کی تعلیم کا اعلیٰ پیمانے پر انتظام کیا گیا۔ 1352 ھ میں حضرت صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے اسمِ گرامی ’’نعیم الدین‘‘ کی نسبت سے اس کا نام جامعہ نعیمیہ رکھا گیا۔ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کو اللّٰہ  تَعَالٰی نے بے شُمار خُوبیوں سے نوازا تھا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہترین مقرِّر، باعمل مبلّغ، مَنجھے ہوئے مفتی اور پُر اثر مُصنِّف ہونے کے ساتھ ساتھ قابل ترین مُدَرِّس بھی تھے ۔ علمِ حدیث میں تو آپ مشہورِ خاص و عام تھے ۔بڑے بڑے علماء کرام اس بات کا اِعتراف کیا کرتے تھے کہ جس طرح حدیث کی تعلیم آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ دیتے ہیں ا ن کے کانوں نے کبھی اور کہیں اس کی سماعت نہیں کی۔اس جامِعِیَّت سے مختصر الفاظ بیان فرماتے تھے کہ مفہوم ذِہن کی گہرائیوں میں اتر جاتا تھا۔فُنُونِ عَقْلِیہ کی کتابوں کی پُر َمغْز مُدَلَّل تقاریر زَبانی کیا کرتے تھے ۔دَرْس کے وقت اپنے سامنے فُنُونِ عقلیہ کی کتاب نہ رکھتے تھے ۔جب طلبہ عبارت پڑھ چکتے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کتاب پر تقریر فرماتے توایسا گمان ہوتا تھا کہ شاید صَدْرُ الافاضِل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہی اس کتاب کے مصنِّف ہیں جو کتاب کی گہرائیوں اور عبارت کے رُموزواَسرار کی وضاحت فرما رہے ہیں ۔عِلْمُ التَّوقِیت جسے علم ہَیْئَت بھی کہتے ہیں اس میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو خدادادمَہارت حاصل تھی ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مُتَعدّد کُرَّۂ فلکی تیّار کرائے جس میں سَبعہ ثَوابِت(یعنی سات آسمانوں ) اور سَیّارگان کو کُرَّہ میں چاندی کے نُقطوں سے واضح فرمایا۔جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ علمِ ہَیْئَتکی تعلیم دیتے تھے تو وہ کُرَّہ سامنے رکھ کرطَلَبَہ کو گویا آسمان کی سیر کرادیتے تھے۔تدریس میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بے مثال مَہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فقیہِ اعظم ہند، شارِحِ بخاری حضرت مولانا مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللّٰہ الغنی فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے مُدرِّس دو ہی دیکھے ہیں ایک صَدْرُ الشریعہ اور دوسرے صَدْرُ الافاضِل (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما  ) ، فرق صرف اتنا تھا کہ صدرُ الشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس شُعبے سے زیادہ وابستہ رہے اور صدر ُالافاضِل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ذرا کم۔ ‘‘ آپ کے مشاہیرتلامذہ میں حضرتِ علامہ سیّدابوالبرکات احمدقادری(بانی دارالعلوم حزب الاحناف مرکز الاولیاء لاہور)، مفسرقرآن علامہ سیّدابولحسنات محمداحمد اشرفی (مرکزالاولیاء لاہور)، تاجُ العلماء مفتی محمدعمرنعیمی(باب المدینہ کراچی)، حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمی(گجرات)، فقیہ اعظم مفتی محمدنور اللّٰہ نعیمی (بصیرپوراوکاڑہ)، مفتی سیّدغلام معین الدین نعیمی (مرکزالاولیاء لاہور)، مفتی محمدحسین نعیمی سنبھلی (بانی جامعہ نعیمیہ مرکزالاولیاء لاہور)، خلیفہ قطب مدینہ مولاناغلام قادراشرفی (لالہ موسیٰ)، مفتی محمد حبیب اللّٰہ نعیمی(شیخ الحدیث جامعہ نعیمیہ مرادآباد) رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم شامل ہیں ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

دَارُ الْاِفْتاء:

صَدْرُ الافاضِل رحمۃ اللہ علیہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوُجود دارُالافتاء بھی بڑی خوبی اور باقاعِدَگی کے ساتھ چلاتے، ہِندا وربیرون ہندنیز مُراد آباد کے اَطراف و اَکناف سے بے شمار اِسْتِفْتا اور اِسْتِفْسَارات آتے اور تمام جوابات آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خود عنایت فرماتے۔ بِفَضلہ  تَعَالٰی فِقہی جُزْئِیّات(جُز۔ئی۔یات) اس قدر مُسْتَحْضَر (مُسْ۔تَح۔ضَر۔ یعنی ذِہن میں رہتے) تھے کہ جوابات لکھنے کے لیے کُتُبْہَائے فِقْہ کی طرف مُراجَعَت(رُجوع کرنے) کی ضَرورت بہت ہی کم پیش آتی۔ شہزادۂ صَدْرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ سیِّد اِخْتِصاصُ الدّین  علیہ رحمۃ اللّٰہ المبین فرمایا کرتے تھے کہ میراث وفرائض کے فتوے کثرت سے آتے مگر حضرت کو جواب لکھنے کے لیے کتاب دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا آج تو ایک بَطْن دو بَطْن چار بَطْن کے فتوے اگر دارُ الافتاء میں آجائیں تو گھنٹوں کتابیں دیکھی جاتی ہیں تب کہیں جاکر فتوے کا جواب لکھا جاتا ہے مگر حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کا یہ حال تھا کہ بیس بیس اکیس اکیس بُطُون (پَیڑ ھیوں ) کے فتوے بھی دار الافتاء میں آگئے مگر حضرت بغیر کتاب دیکھے جواب تحریر فرما دیتے تھے البتہ انگلیوں پر کچھ شمار کرتے ضرور دیکھا جاتا اور آپ کے فتوے کے اِسْتِرداد(رد کرنے) کی کبھی نوبت نہیں آئی۔

خوش نویسی:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کی خَطّاطی ایسی عمدہ اور قواعد کے مطابق تھی کہ سینکڑوں خوش نویس اِس فن میں آپکے شاگرد ہیں ۔ مزید برآں آپ خطاطی کے ساتوں طرزِ تحریر میں بے مثال کمال رکھتے تھے۔

ترجمہ’’ کنزالایمان‘‘ کی پہلی اشاعت:

اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے شہرۂ آفاق ترجمۂ قراٰن ’’ کنزالایمان ‘‘ کی اَوَّلین اشاعت کا سہرا بھی صَدْرُ الافاضِل مولانا نعیم الدین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللّٰہ الھادی کے سر ہے ۔ کنزُالایمانکی اوّلین، عمدہ اور خوبصورت طباعت کے لئے صَدْرُ الافاضِلعلیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے جامعہ نعیمہ مُراد آباد میں ذاتی پریس لگوایا۔جس میں کام کرنے والے سارے اَفرادخوش عقیدہ مسلمان تھے جو باوُضو ہو کرکنزُالایمان کی کتابت سے لے کر جِلد سازی تک کے تمام مَراحِل بڑے اِنہِماک اور عقیدت سے طے کرتے تھے۔ اس سارے عمل کی نگرانی صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل خود کرتے تھے۔آج دنیا میں جوکنزُالایمان دستیاب ہے یہ وُہی ’’ کنزالایمان ‘‘ہے جسے صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے شائع کرایا تھا۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کنزُالایمان پر تفسیری حاشیہ بنام’’ خَزائِنُ الْعِرْفَان فِیْ تَفْْسِیْرِ الْقُرْاٰن‘‘لکھا جو اپنی نوعیت کے اِعتبار سے پہلا مکمل حاشیہ ہے اور اِس کی مقبولیت کا اندازہ صرف اس ایک بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کنزُالایمان اور خزائنُ العرفان دونوں لازِم ومَلزوم ہیں ۔

والِد صاحب کی رِحلت اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا تعزیعت نامہ:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے والدِ بُزُرگوار ، استاذُ الشُّعراء حضرت مولانا مُعینُ الدین صاحِب نُزْہَتؔ   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کے مُرید تھے ، ایک شِعر میں اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں :     

پِھرا ہوں میں اُس گلی سے نُزْہَتؔ ، ہوں جس میں گمراہ شیخ وقاضی

رِضائے احمد اِسی میں سمجھوں کہ مجھ سے احمد رضا ہوں راضی

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 80سال کی عمر میں چار دن بخار میں مبتلا رہ ہو کرکلمۂ پاک کا وِرد کرتے ہوئے اس دُنیا سے رُخصت ہوئیْ۔ حضرت کے انتقالِ پُر مَلال کی خبر جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کو ’’کوہِ بھوالی ‘‘میں پہنچی تو آپ نے  جومکتوبِ گرامی تعزیت میں ارسال فرمایااُس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے :  

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمْ ، مَوْلٰنَا الْمُبَجَّلُ الْمُکَرَّمُ ذِی الْمَجْدِ وَالْکَرَمِ حَامِیُ السُنَنْ مَاحِیُ الْفِتَنْ جُعِلَ کَاِسْمِہٖ نَعِیْمُ الدِّینْ    اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَمَا اَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابْ وَاِنَّمَا الْمَحْرُوْمُ مَنْ حُرِمَ الثَّوَابْ، غَفَرَلَہٗ اللّٰہُ الْمَوْلٰنَا مُعِیْنَ الدِّینْ وَرَفَعَ کِتَابَہٗ فِیْ عِلِّیِّیْنْ، وَبَیَّضَ وَجْھَہٗ یَوْمَ الدِّینْ، وَاَلْحَقَہٗ بِنَبِیِّہٖ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ اَجْمَعِینْ وَاَجْمَلَ صَبْرَکُمْ وَاَجْزَلَ اَجْرَکُمْ وَجَبَرَ کَسْرَکُمْ وَرَفَعَ قَدْرَ کُمْ۔ اٰمِین 

یعنی :  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! بے شک اللہ تَعَالٰی ہی کا ہے جو وہ عطا کرتا ہے اورجوواپس لے لیتا ہے، بے شک اس کے یہاں وقت ہرشے کامقرر ہے ، صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملتا ہے ، اللہ تَعَالٰی مولانا معین الدین کی مغفرت فرمائے ، ان کے نامہ اعمال کو علیین میں رکھے ، بروز محشر ان کا چہرہ روشن فرمائے اور انہیں سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ سے ملاقات کا شرف بخشے ، اللہ تَعَالٰی آپ کو صبر جمیل اوراجر جزیل بخشے اور آپ کے ادھورے کاموں کو مکمل فرمائے اور آپ کو مزید عزت بخشے ۔آمین 

اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید لکھتے ہیں :  یہ پُر ملال کارڈ روزِ عید آیا، میں نمازِ عید پڑھنے ’’نینی تال‘‘ گیا ہوا تھا، شب کو بے خواب رہا تھا اور دن کو بے خورو خواب (یعنی کھائے اور سوئے بغیر)اور آتے جاتے ڈانڈی  [1]؎ میں چودہ میل کا سفر! دوسرے دن بعد نمازِ صبح سورہا ، سو کر اٹھا تو یہ کارڈ پایا۔ اسی روز سے مولانا مرحوم کا نام تابقائے حیات، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تعالٰیروز ایصالِ ثواب کے لیے داخلِ وظیفہ کرلیا۔ وہ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ    تعالٰی بہت اچھے گئے، مگر دنیا میں ان سے ملنے کی حسرت رہ گئی۔مولیٰ  تَعَالٰی آخر ت میں زیرِ لِوائے سرکارِ غوثیت (یعنی غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے جھنڈے تلے) ملائے، اٰمین اَللّٰھُمَّ اٰمین۔

یک شہادت وفات دررمضان          مرگِ جمعہ شہادتِ دگرست

مرضِ تپ شہادتِ سو میں          بہرِ ہر سہ شہادتِ خبرست

درمزارست چشمِ وا  یعنی         پئے دیدارِ یار منتظر ست

مردہ ہرگز نہ معین الدین           کہ تراچوں نعیم دیں پسر ست

یعنی :  رمضان میں مرنا شہادت کی ایک قسم ہے ، جمعہ کے دن مرنا شہادت کی دوسری قسم ہے۔بخار میں مرنا شہادت کی تیسری قسم ہے ، ان تینوں شہادتوں کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔مزار میں بھی آنکھ کھلی ہے ، اس لئے کہ دیدارِ یار کے منتظر ہیں ۔معین الدین( آپ )ہر گز مردہ نہیں ، اس لیے کہ آپ کا بیٹا نعیم الدین جیسا ہے۔)   

فسادیوں کی توبہ:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کا اندازِ بیان ایسا مسحور کُن تھا کہ اپنے تو داد دیتے ہی تھے مخالفین بھی دم بخود رہ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ’’ رانا دھول پور‘‘ کے علاقے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیان تھا ، لوگوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے جُوق درجُوق شرکت کی۔ جب بیان شروع ہوا تو شرپسندوں کا ایک ٹولا آیا اور بیٹھ گیا۔ جب انہوں نے حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کا خطاب سنا تو وہ مسحور ہو کر رہ گئے ، ان کی تُرکی تمام ہوگئی اور انہیں اپنے تہی دامن ہونے کا اِحساس ہوگیا۔ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے بیان کے بعد عام اِعلان فرمایا :  ’’ اگر کسی کو میری تقریر پر کوئی اِشکال (و اعتراض)ہو تو بیان کرے، اس کو مطمئن کیا جائے گا۔‘‘ تو یہ پوری جماعت کھڑی ہوگئی اور کہا :  حضور !اِشکال تو کوئی نہیں پر اتنی عرض ہے کہ ہم فساد کے لیے آئے تھے، لیکن آپ کی تقریر نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں ، اب اتنا کرم فرمائیے کہ ہمیں توبہ کرائیں اور آج شام اسی موضوع پر ہمارے مَحَلے میں بھی بیان فرمائیں ۔

داڑھی رکھنے کے لئے خاموش انفرادی کوشش:

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے ایک خدمت گزار کا بیان ہے :   شروع میں میری داڑھی خَشْخَشِی ہوتی تھی اور صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔ ایک دن بڑے پیار بھرے انداز میں میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بڑے معنی خیز انداز میں مُسکراتے ہوئے فرمانے لگے :  ’’مولانا! کیا حال ہے ؟‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اس اندازِ نصیحت سے میں اتنا متأثر ہوا کہ آج 60برس سے زائد ہونے کو آئے ہیں کبھی داڑھی حدِ شرع (یعنی ایک مٹھّی ) سے کم نہیں ہوئی ۔

اِمام بنانے سے پہلے قِرَاءَ ت دُرُست کروائی:

خلیفۂ صَدرُ الافاضِل حضرت مولانا مفتی سیدغلام معین الدین نعیمی علیہ رحمۃ اللّٰہ الغنی کا بیان ہے کہ جب سے صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کو مرضِ ذیا بَیطُس (شوگر)نے جماعت کرانے سے روکا ہوا تھا، اس وقت سے مسجد میں نماز باجماعت کے لئے مجھے ہی فرماتے تھے۔ اگرچِہ میری قِراء تِ قراٰن کی تصحیح میرے والد صاحب نے شروع ہی میں کرا دی تھی، پھر قواعد تجوید بھی سیکھے تھے لیکن حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے اس کے باوُجود راتوں کومشق کروا کر میری قراء ت کی تصحیح کرائی ۔جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نظر میں میری قراء ت دُرُست ہوئی تو مجھے آگے بڑھا دیا۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کی شاعری:

اللّٰہ  تَعَالٰی نے حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کو شعر گوئی کا بڑا پاکیزہ ذَوق بخشا تھا۔ عَرَبی، فارسی اور اردو میں بڑی رَوانی سے شِعر کہتے تھے، بُلند و بالاتَخَیُّلات کو اِس عمدَگی اور خوبی سے ادا کرتے کہ سننے والا جھوم جھوم جائے، لیکن اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی طرح آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا سرمایۂ شاعری حمد ونعت ، مَنْقَبت اور نصیحت آموز اشعار تک محدود ہے ۔ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کی شاعِری کے مجموعے کا نام ’’ریاضُ النَّعیم‘‘ ہے۔ فکرِ آخرت سے معمور چند اشعار ملاحظہ ہو ں ۔ 

فَصاحت سے کہتے ہیں مُوئے سفید      کہ ہُشیار ہو، اب سَحَر ہوگئی

خُودی سے گزر، چل خدا کی طرف       کہ عمرِ گِرامی، بسر ہوگئی

غم و خونِ دل کھاتے پیتے رہے        غریبوں کی اچھّی گزر ہوگئی

   نعیمِؔ خطا کار مغفور ہو               جو شاہِ جہاں کی نظر ہوگئی

ایک نعت شریف کے چند اشعار ملاحَظہ ہوں۔

   

دیکھئے سیمائے انور، دیکھئے رُخ کی بہار     

مہرِ تاباں دیکھئے، ماہِ دَرَخشاں دیکھئے

 

دیکھئے وہ عارِض اور وہ زُلْفِ مُشکیں دیکھئے

صبحِ روشن دیکھئے ، شامِ غریباں دیکھئے

 

جلوہ فرما ہیں جبینِ پاک میں آیاتِ حق

مُصحَف رُخ دیکھئے تفسیرِ قرآں دیکھئے

 

یہ نعیمِ ؔزار کیسا ہِجْر میں بے تاب ہے

دیکھئے اِس کی طرف، اے شاہِ شاہاں دیکھئے

تصنیف وتالیف:

حضرتِ سیِّدُنا صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل نے بے پناہ دینی و ملّی مصروفیات کے باوُجود تصنیف و تالیف کا بڑا ذخیرہ یادگار چھوڑا ۔آپ نے1343ھ بمطابق 1924ء  میں مرادآبادسے ماہنامہ ’’اَلسَّوَادُ الْاَعْظَم ‘‘جاری فرمایاجس میں مسلمانوں کی خوب تربیت فرمائی ، آپ کی یادگارکتب یہ ہیں :

  (1) تفسیر خزائن العرفان (2)نعیم البیان فی تفسیر القرآن (3)الکلمۃ العلیا لاعلاء علم المصطفیٰ (4)اطیب البیان در رد تقویۃ الایمان (5)اسواط العذاب علی قوامع القباب (6)آداب الاخیار (7)سوانح کربلا (8)سیرت صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم (9)التحقیقات لدفع التلبیسات (10)ارشاد الانام فی محفل لمولود والقیام (11)کتاب العقائد (12)زاد الحرمین (13)الموالات (14)گلبن غریب نواز (15)شرح شرح مائۃ عامل (16)پراچین کال (17)شرح بخاری (نامکمل غیر مطبوع) (18)شرح قطبی (نامکمل غیر مطبوع) (19)ریاض نعیم (مجموعہ کلام) (20)کشف الحجاب عن مسائل ایصال ثواب (21)فرائد النور فی جرائد القبور۔

خیرخواہی:

خلیفۂ صَدْرُ الافاضِل حضرت مولانا مفتی سیدغلام معین الدین نعیمی علیہ رحمۃ اللّٰہ الغنی کا بیان ہے کہ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے وصال سے تین روز قبل کا واقعہ ہے کہ میرے کان میں شدید درد تھا اور بے ساختہ سوتے جاگتے کان پر ہاتھ جاتا تھا۔ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صبح کے وقت اِشارے سے قلم دوات طلب فرمائی ۔حکم کی تعمیل کردی گئی، آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بیماری کی حالت میں لکھا :

’’میں رات کو دیکھتا ہوں کہ بے اختیار بار بار تمہارا ہاتھ کان پر جاتا ہے جاؤ! ڈاکٹر مشتاق کو دکھاؤ۔‘‘

 ذکر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی عادت:

انہی کا بیان ہے :  صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کا معمول تھا کہ اٹھتے بیٹھتے حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْر پڑھتے تھے۔ علالت کے زمانے میں یہ شوق مزید بڑھ گیا تھا ۔اپنی وفات سے کچھ ایّام قبل کلمۂ شہادت اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِٰلہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ پڑھتے رہتے تھے۔ ایک روز مجھ سے فرمایا :  ’’ شاہ جی ! گواہ رہنا جب مجھے افاقہ ہوتا ہے، تو میں کلمۂ شہادت پڑھتا ہوں ۔ ‘‘ غالباً یہ ’’اَنْتُمْ شُھَدَائُ اللّٰہِ فِی الْاَرْض (یعنی تم زمین پر اللّٰہ  تَعَالٰی کے گواہ ہو)‘‘ ارشادِ نبوی کے ماتحت عمل فرمایا گیا، ورنہ کہاں میں اور کہاں اس بُقْعَۂ نور کے لیے شہادت(یعنی گواہی)!

وقتِ رُخْصَت  کے حالات:

انہی کا بیان ہے :  گیارہ بجے کا وقت تھا، صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل  نے اپنی سہ دری کے تینوں دروازے بند کرادیئے۔کمرے میں میرے اور حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سوا کوئی نہ تھا۔ تھوڑی دیر مجھ سے گفتگو فرمائی ، اس کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خاموش ہوگئے۔تقریباً ساڑھے گیارہ بجے فرمایا ، پنکھا کھول دو، میں نے کھول دیا، پھر فرمایا :   کم کردو، میں نے اس کی رفتار نمبر2 پر کردی، پھر فرمایا اور کم کردو، میں نے نمبر 3 پر رفتار کردی، کچھ وقفے کے بعد فرمایا اور کم کردو، اب میں نے پنکھے کا رُخ دیوار کی طرف کردیا، تاکہ دیوارسے ٹکرا کر ہوا پہنچے کچھ وقفے کے بعد فرمایا :   بند کردو۔ اس کے بعد فرمانے لگے :   میرا بازو دباؤ۔ چُنانچِہ میں چار پائی کی داہنی جانب بیٹھ کر بازو اور کمر دبانے لگا، دیکھا کہ زَبانِ اقدس سے کچھ فرمارہے ہیں اور چہرئہ اقدس پر بے حد پسینہ ہے۔میں نے رومال سے  چہرے کا پسینہ خشک کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نظرِ مبارَک اٹھا کر میری طرف ملاحَظہ فرمایا، پھر آواز سے کلمۂ پاک  لَا اِٰلہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھنا شروع کیا۔ لیکن دَم بدم آواز پست سے پست ہوتی چلی گئی، ٹھیک بارہ بج کر 25 مِنَٹ پر مجھے پھیپھڑوں کی حَرَکت بند ہوتی معلوم ہوئی، خود ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے رُو بقبلہ ہو کر اپنے ہاتھ پیر سیدھے کرلئے تھے۔یوں 19ذوالحجۃ الحرام 1367ھ کوکلمہ شریف پڑھتے ہوئے جانِ پاک، جانِ آفریں کے سِپرد ہوئی۔

میرے جنازے کی نُمائش نہ کرنا:

حضرت مولانا مفتی سیدغلام معین الدین نعیمی علیہ رحمۃ اللّٰہ الغنی کا بیان ہے کہ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل  نے مجھ سے فرمایا :  میرے جنازے کی نُمائش نہ کرنا ، اگر لوگ زیادہ اِصرار کریں تو صِرف مَحَلّہ چوکی حسن خان تحصیلی اسکول ، نئی سڑک اور کاٹھ دروازے سے ہوتے ہوئے مدرَسے کے صحن میں نَمازِ جنازہ ادا کرنا ، وہاں سے سیدھا میری آخِری آرام گاہ لے جانا ۔   

ایمان افروزخواب:

حضرتِ سیِّدُنا صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کی وفات سے پہلے حضرت مولانا مفتی سیّدغلام معین الدین نعیمی علیہ رحمۃ اللّٰہ الغنی نے ایک ایمان افروز خواب دیکھا کہ ایک نہایت عالی شان بُقْعۂ نور کمرہ ہے، چاروں طرف قالین پر گاؤ تکیے لگے ہوئے ہیں ، ایک طرف حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدّیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ رونق افروز ہیں ، ایک طرف حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ ذُوالنُّورَین، ایک طرف حضرت سیدنا مولیٰ مشکلکشا علی مرتضٰی کرم اللّٰہ تعالٰی وجہہ الکریم ایک طرف حضرتِ سیدنا ابوہریرہ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم تکیہ لگائے رونق افروز ہیں ، آخر میں ایک کونے پر ایک نشست خالی ہے، کمرے کے دروازہ پر حضرت سیدُنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کسی کے انتِظار میں کھڑے ہیں کہ ایک طرف سے سفید عمامہ باندھے سفید ململ کی اچکن پہنے حضرتِ صَدْرُ الافاضِل مولاناسیّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللّٰہ الہادی آرہے ہیں ۔ حضرتِ سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :   تمہاری نشست اندر خالی ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عرض کی :   میرے لیے یہی بڑی سعادت ہے کہ جُوتیوں میں جگہ مل جائے ، مگر حضرتِ سیدنافاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے، حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہ کہہ کر اندر داخل ہوگئے :  ’’ اَلْاَمْرُفَوْقَ الْاَدَبِ ( یعنی حکم ادب پر فوقیت رکھتا ہے )۔اُس خالی نشست میں آپ کو لے جا کر بٹھایا گیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابھی پورے بیٹھے بھی نہیں تھے کہ میری آنکھ کسی وجہ سے کُھل گئی۔ صبح میں نے حضرتِ صَدْرُ الافاضِل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سامنے اپنا خواب بیان کیا، جسے سن کر حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے، فرمایا :   ’’میرا انتظار ہے، اب میں جارہا ہوں ، یہی اس کی تعبیر ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی غیر منقولہ جائیداد کو اپنے چاروں صاحبزادوں کو منتقل فرمایا۔ منقولہ جائیداد کو تقسیم کیا، صرف آٹھ سو روپیہ اپنے تجہیز و تکفین اور علاج وغیرہ کے لیے باقی رکھا۔

مد ینے کا مُسافِر:

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان حجِّ بَیتُ اللّٰہ پر تشریف لے گئے ۔ جب وہ مدینۂ مُنوّرہ میں جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم کے دربارِ گُہربار میں حاضِر ہوئے تو سنہری جالیوں کے قریب دیکھا کہ حضرتِ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل  بھی مَجمع میں موجود ہیں ۔ملاقات کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ باادب لوگ تو وہاں بات چیت نہیں کر تے ۔صلوٰۃ و سلام سے فارِغ ہونے کے بعد باہَر تلاش کیا مگر ملاقات نہ ہوئی۔ حضرت شیخُ الْفَضِیلَت، شیخُ العَرَبِ وَالْعَجَم قطبِ مدینہ سیِّدی و مولائی ضیا ء الدِّین احمد قادِری رضوی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی کے دربار ِفَیض آثار پر حاضِر ہوئے کہ عَرَب و عَجَم کے تمام عُلَمائے حق اور مَشائخِ کرام حَرَمَیْنِ طَیِّبَینْکی حاضِری کے دوران حضرت شیخُ الْفَضِیلَت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی زِیارت کے لئے ضَرور حاضِر ہوتے تھے۔ وہاں بھی حضرتِ صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کے مُتَعلِّقْ کوئی معلومات حاصِل نہ ہوئیں ۔حیران تھے کہ صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل اگر تشریف لائے ہیں تو کہاں گئے؟ دَرِیں اَثنا مُراد آباد(ہند) سے تار حضرت شیخُ الْفَضِیلَت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے آستانِ عَرْش نِشان پر آیا کہ فُلاں دن فُلاں وقت حضرتِ صَدرُ الافاضِل مولانا نعیم ُالدِّین صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کامُراد آباد میں وِصال ہو گیا ہے ۔مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان نے جب وقت مِلایا تو وُہی وقت تھا جس وقت سنہری جالیوں کے قریب  صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل  نظر آئے تھے ، فورا سمجھ گئے کہ جیسے ہی اِنْتِقال فرمایا، بارگاہِ رسالَت صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم میں صلوٰۃوسلام کے لئے حاضِر ہوگئے۔    

مدینے کا مُسافِر ہند سے پہنچا مدینے میں

قدم رکھنے کی نَوبَت بھی نہ آئی تھی سفینے میں

مزار شریف:

جامعہ نعیمیہ (مراد آباد ، ہند)کی مسجد کے بائیں گوشے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی آخِری آرام گاہ ہے ۔اللّٰہ  تعا لیٰ ہمیں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فیوضات سے مُستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

استفادہ از: https:www.dawateislami.net/bookslibrary/1072/page/1